Saturday, April 9, 2011

یہ مایوسی کیوں۔۔۔؟ ۔۔ از: روشانے سبعین، فیصل آباد

لگ بھگ پچھلے بیس پچس دن سے آدھی دنیا خصوصاً جنوبی ایشیاءکرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے ۔ پاکستان اور ہندستان کا میچ جس پر ہر ایک کی نظر تھی دو دن قبل اپنے اختتام کو پہنچا۔ میچ کیا تھا ۔۔۔۔ گویا انا اور ضد کی جنگ ۔۔۔۔ جس کی دونوں طرف سے تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ دونوں ممالک کے عوام کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ لوگوں نے ہار جیت کو انا کا مسلئہ بنا رکھا تھا۔ ہارنے کے بعد پاکستان میں مایوسی اور بد دلی انتہاوں پہ تھی۔ کچھ لوگوں نے اپنے ٹی وی سیٹ توڑ ڈالے۔ کراچی کے ایک مزاحیہ فنکار لیاقت سولجر کو دورانِ میچ پاکستان کی کمزور پوزیشن دیکھ کر ہارٹ اٹیک ہوا اور موصوف جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے پاکستانی عوام بشمول حکومت ہندوستان کے مقابل خود کواحساسِ کمتری میں مبتلا پاتے ہیں بوجہ انڈین میڈیا کی تیزی سے ترقی، انڈین فلم انڈسٹری، ہندستان کا I.T. کی صنعت میں تیزی سے اُوپر آنا، ہندستان کے جوھری ہتھیار اور جنگی سازو سامان بمہ جنگی صنعت بھی خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن یہاں میں اپنے قارئین کی توجہ کچھ زمینی حقائق کی طرف مبزول کروانا چاہوں گی۔ جب برِصغیر کا بٹوارا ہواتو ہندستان نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ یہ نوزائیدہ مملکت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکے، ان میں سے ہندستان کی چند مکارانہ کوششوں کا ذکر یہاں ضروری ہے لیکن محدود جگہ کے پیش نظرغیر ضروری تفصیل میں جانے سے گریز کروں گی۔
سب سے پہلے رقبے کی غلط تقسیم کہ کس طرح ایک ہی رات میں ریاست جونا گڑھ اور پنجاب کے بہت سے علاقے بھارت کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔ کشمیر جو کہ مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست تھی بغیر کوئی لائحہ عمل طے کئے اسطرح چھوڑ دی گئی کہ ہندستان کیلئے فوجی دخل اندازی کی راہ ہموار ہو جائے جس پر ہندستان نے 1948 کو عمل بھی کیا۔ اس طرح دفاعی سازو سامان جو پاکستان کا حق بنتا تھا اُس میں بھی گھپلا کیا گیا اور انتہائی کم سازو سامان دیا گیا ، وہ بھی تقریباً ناکارہ یا ناکارہ ہونے والا تھا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جب ہندستان اور پاکستان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوئے تو پاکستان صفر پوزیشن پر کھڑا تھا۔ کیونکہ مندرجہ بالا مشکلات کے علاوہ مہاجرین کا مسئلہ، سرمائے کا مسئلہ، تعلیم یافتہ افراد کی قلت، سہولتوں کا فقدان اور دیگر بہت سے مسائل ایسے تھے جن میں پاکستان گھرا ہوا تھا۔ جبکہ ہندستان نا صرف یہ کہ پہلے سے اسٹیبلشڈ ملک تھا بلکہ تمام دنیا خصوصاً مغرب نے ہندستان سے اپنے تعلقات استوار کئے اور اُنکے قومی مفادات میں اُنکی ہر ممکن مدد کی۔
چودہ اگست 1947 ۔۔۔۔ اب دونوں ریاستیں خود مختار تھیں۔ اگر دونوں ممالک کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت سی باتوں میں ہم اُن سے برتری رکھتے ہیں جیسا کہ 1976 میں پاکستان ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ نشریات اپنے قابل انجینئرز کی معاونت سے رنگین کر لیتا ہے۔ جبکہ ہندستان نے یہی کام ہم سے سات سال بعد 1983 میں کیا۔ تقسیم کے فوراً بعد انڈیا نے سوویت یونین کی مدد سے نیوکلئیر پروگرام شروع کیا اور 1974 میں اندرا گاندھی کی حکومت میں پوکھران میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ جبکہ پاکستان نے بیرونی امداد حاصل کئے بغیر دو سال بعد 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی معاونت سے نیوکلئیر پروگرام شروع کیااور تین ایٹمی دھماکوں کے جواب میں مئی 1998 میں پانچ ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ ہندستان کے شدید ترین پراپوگنڈا کے باوجوددنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت بہت قوی اور محفوظ ترین ہے۔ دوسری طرف ہندستانی حکومت نے پوکھران اور گردُ نواح کے علاقے خالی کروا لئے بوجہ تابکاری کا خطرناک حد تک اخراج۔

ہندوستانی حکومت نے سوویت یونین کی مدد سے ’ارجن‘ نامی ٹینک کا منصوبہ شروع کیاجو کہ کثیر وقت اور لا محدود سرمایا خرچ کرنے کے بعد ہندوستانی سابقہ اور موجودہ جرنیلوں اور دوسری اہم شخصیات کی شدید ترین نقطہ چینی کے بعدناقابلِ عمل قرار دے کر بند کرنا پڑا۔ پاکستان کی حکومت نے جنرل محمد ضیاءالحق کے دور میں’ الخالد‘ ٹینک کاپراجکٹ شروع کیااور 2001 میں پاکستان آرمی کے حوالے کر دیا گیا۔ 2001 میں ہی پاکستان نے ’الضرار‘ آرمرڈ پرسنل کیرئر بھی بنا ڈالیں جو اپنی قیمت کے اعتبار سے دنیا بھر میں ممتاز ہیں ، اسی سال ان کو نمائش کیلئے پیش کر کیا گیا۔ پھر T-37 مشاق (ٹرینر) طیاروں کا منصوبہ بھی پاکستان نے کامیابی سے مکمل کیا۔ آج سعودی عریبیہ، ایران اور متحدہ عرب امارات اِن طیاروں کے بڑے خریدار ہیں۔ انڈیا اپنے تمام تر وسائل کے اور بیرونی دنیا خصوصاً سوویت یونین کی مدد کے باوجود آج تک کوئی فائٹر ائر کرافٹ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکاجبکہ پاکستان کے محبِ وطن انجنئرز اور سائنسدانوں نے چین کے اشتراک سے ایف سیون جے تھنڈر جیسا جدید ترین فائٹنگ ائرکرافٹ تیار کیاجو خود اپنی مشال آپ ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی کی طرف آئیں توہندوستانی بیلسٹک میزائل ’پرتھوی‘ اور طیارہ شکن ’اگنی‘ کے جواب میں پاکستان نے ہتف سیریز کے میزائل غوری، شاہین اور طیارہ شکن عنزہ نامی میزائل بنائے جن کو ساری مغربی دنیا نے منفی انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا اور انتہائی کوششیں کر ڈالیں کے پاکستان اپنی میزائل سازی کی صنعت بند کر دے۔ زرعی اجناس کی طرف آئیں تویورپ، امریکہ اور جاپان پاکستان کی کاٹن کی اعلی کوالٹی کے پیشِ نظر ہمارے بڑے خریدار ہیں۔ پاکستانی سُپر کرنل باسمتی چاول دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ پاکستانی کینو اپنی مٹھاس کے باعث ایک شاندار پراڈکٹ ہے۔ آم کی 80فیصداقسام پاکستان میں کاشت ہوتی ہیں۔ غرض ایک لمبی لسٹ ہے جسکا تفصیلی ذکر یہاں ممکن نہیں۔ بات اگرچہ کرکٹ سے شروع ہوئی تھی کہ جسکی ایک ہار نے پاکستانی قوم کو فرسٹریٹڈ کر دیا۔ کھیل کو صرف کھیل کے طور سے ہی لیا جائے تو بہتر ہے اور کھیل میں ہار جیت معمول کی بات ہے۔ اور بات اگر انا کی تسکین کی ہے تومندرجہ بالا تمام تفصیل کی روشنی میں غور کیجئے کہ ہم کہیں سے بھی ہندوستان سے مقابلے میں کم نہیں ہیں، لہذہ ناکامی پہ جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشتعل ہونے کی بجائے اُن حقائق کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے جو شکست کا سبب بنے۔

جیسا کہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مقابل پاکستانی ٹیم کچھ نو آموز تھی۔ عمر گل، محمد حفیظ اور مصباح اُن کھلاڑیوں میں سے ہیں جن پر ہم تکیہ کئے ہوئے تھے اور یہ سب کے سب نئے لڑکے ہیں ان میں سے کسی کو بھی سینئر پلیئر نہیں کہا جا سکتا۔ تین اہم ترین کھلاڑی بھی ٹیم میں شامل نہیں تھے خود شاہد آفریدی کو کپتانی کی ذمہ داری سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ دوسری طرف یووراج سنگھ، دھونی اور ٹنڈولکر جیسے سینئر ترین پلیئر شامل تھے اور ہندوستانی بیٹنگ آرڈر بھی ہم سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ہندوستان کو ہوم وکٹ اور ہوم کراوڈ کا بھی ایڈوانٹیج حاصل تھا۔انٹرنشنل کرکٹ کونسل کی جانبداری کے باعث پچھلے دو سال سے پاکستان میں انٹرنشنل میچز منعقد کروانے ممکن نہ وہ سکے جسکی وجہ سے پاکستانی ٹیم اپنی بھر پور فارم میں نہ تھی،پاکستان اپنی بیٹنگ لائن اور فیلڈنگ میں بھی کمزور تھا۔ پاکستانی ٹیم ہندوستانی ٹیم کے ہم پلہ نہیں تھی اور اسکا جو نتیجہ نکلا ہے کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے کہ جس کو لے کر ہم مایوس ہو جائیں کہ نوبت ٹی وی سیٹ توڑنے اور ہارٹ اٹیک تک پہنچ جائے۔ میچ سے قبل بہت سے کرکٹ ماہرین نے دونوں ٹیموں کا موازنہ کرتے ہوئے انڈیا کے میچ جیتنے کی پیشئن گوئی کی تھی۔ ہماری اپنی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے بھی میچ سے ایک دن قبل انڈیا کے میچ جیتنے کے امکان کو ظاہر کیا تھا۔ سو ایک کمزور ٹیم کو لے کر شاہد آفریدی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچ گئے یہ ہمارے لئے بڑی اچیوومنٹ ہے۔
لہذہ انڈیا سے میچ ہارنے کے پر یہ مایوسی اور بد دلی کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟

مطبوعہ، روزنامہ دن
بشکریہ : روشانے سبعین

1 comment:

  1. محترمہ روشانے سبعین۔
    پاک بھارت کرکٹ کے تناظر میں آپ نے جس عرق ریزی سے اظہاریہ تحریر کیا ہے اس کے لیے دل کی عمیق و بسیط گہرائیوں سے دعا گو ہوں باری تعالی مزید مزید حرمت ِ قرطاس و قلم عطا فرمائے ۔یہ اظہایہ نہ صرف پاک بھارت کرکٹ جنگ کے تناظر میں بلکہ خاصی حد تک دونوں ملکوں کی عالمی حیثیت پر بھی تفصیلی گفتگو رہی۔ ایک اچھی شاعرہ اور افسانہ نگار ہونے کے وصف سے آگاہ تھا ایک اچھی اظہاریہ نویس ہونے کا بھی معترف ہوں ۔ سلامت رہیں بہت سی دعائیں ۔
    مناسب خیال کیجے تو اخبار کی تاریخِ اشاعت سے بھی آگاہ کر دیا کیجے ۔ انشا اللہ آپ سے مراسلت کا شرف حاصل رہے گا۔
    کم خلوص: م۔م۔مغل، کراچی

    ReplyDelete

اظہاریہ ملاحظہ کیا گیا ، شماریات