چہل قدمی کیلے ہر شام پارک جانااور اُنسے باتیں کرنا میرا روز کا معمول بن گیا۔ وہ بھی ہر روز پارک آنے لگیں۔ مجھے دیکھتے ہی اُنکے چہرے پے ممتا کی الوہی چمک بکھرنے لگتی۔ پھر ایک دن وہ خلافِ معمول بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں، میں نے استفسار کیا تو بتانے لگیں کہ آج میرا بیٹا اور بہواپنے بچوں سمیت مجھے ملنے آئے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ ماں جی کبھی اپنے بارے میں اتنا کھل کر بات نہیں کرتیں تھیں، کریدنے کی عادت مجھے بھی نہ تھی، سو میں اُنکے حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی لیکن اُس دن خلافِ عادت اپنے بارے میں سب بتاتی چلی گئیں شاید وہ کتھارسس کے موڈ میں تھیں۔
ماں جی جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں تھیں، اُنکے شوہر ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے، وہ ایک ورکشاپ میں معمولی سے موٹر مکینک تھے اور یہ لوگ ڈھائی مرلے کے چھوٹے سے گھر میں رہائش پزیر تھے۔ ماں جی گورنمنٹ سکول میں ٹیچر تھیں اور شام میں کئی بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھایا کرتی تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد اُنہوں نے حالات کا مقابلہ بہادری سے کرتے ہوئے اپنے بچوں کو دینی ہ دنیاوی دونوں تعلیموں سے آراستہ کیا۔ اُنکے تین بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے وقت بہت کمسن تھے۔ کئی لوگوں نے اُنہیں دوسری شادی کا مشورہ دیا، لیکن اُنھوں نے کسی کی ایک نہ سُنی اور دن رات ایک کر کے اپنے بچوں کو پروان چڑھایا۔
’ اللہ کا بڑا احسان ہے اس نے مجھے میرے مقصد میں سرخرو کر دیا۔ آج میرے تینوں بیٹے پڑھ لکھ کر اُنچے مقام پر ہیں‘ اُنکے لہجے میں ممتا کا تفاخر تھا۔ ’وہ تینوں زندگی کی دوڑ میں بہت آگے ہیں، اِتنے آگے کے اُنکی ماں بھی پیچھے چھوٹ گئی ہے‘۔ وہ ایک دم مضطرب ہو گئیں۔ ’ماں جی کیا کرتے ہیں آپکے بیٹے؟ میں نے یونہی بر سبیلِ تذکرہ پُوچھا۔۔۔۔ ’سب سے بڑا کیپٹن ڈاکٹر ہے، اسلام آباد میں، دوسرا ماشاءاللہ لیکچرر ہے انگریزی کا، اِدھر فیصل آباد میں ہی رہتا ہے، اور تیسرا دبئی ہوتا ہے، بڑی اچھی نوکری ہے اُسکی، اُ س نےایم بی اےکیا ہوا ہے۔۔۔۔ خیر سے تینوں شادی شدہ ہیں۔
اپنے بچوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے اُنکی آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک تھی۔ ’آپ اکیلی کیوں رہتی ہیں؟‘ معاً میں نے استفہام کیا۔ ’بس ایسے ہی۔۔۔۔‘ وہ پھیکی سی ہنسی ہنسیں۔ ’دو تو ویسے ہی دور ہیں۔۔۔۔ سال میں ایک آدھ بار ملنے آ جاتے ہیں، ایک اِدھر فیصل آباد میں ہی ہے، پر وہ لوگ اس چھوٹے سے گھر میں بھلا کس طرح رہ سکتے ہیں؟‘ اُنھوں نے گویا اپنے بچوں کی لاپرواہی پر پردہ ڈالا۔ ’تو آپ اُنکے پاس چلی جائیں نا‘۔ ’نہیں بیٹا۔۔۔۔! اُنکی بیویوں کو لگتا ہے کہ ماں کے آنے سے اُنکی روٹین ڈسٹرب ہوتی ہے۔ تم تو جانتی ہو ہم پرانے لوگ روک ٹوک کے عادی ہوتے ہیں اِسی لیئے اُنکی طرف کم ہی جاتی ہوں۔‘ وہ سارا الزام خود پر لے رہی تھیں، مجھے اُنکی باتیں سُن کر حقیقتاً افسوس ہوا۔۔۔۔ ’کتنے دن بعد ملنے آتے ہیں؟‘ ’یہی کوئی چھ سات ماہ بعد، کبھی کبھار بہو اور بچوں کو بھی لے آتا ہے‘۔ ’ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اتنی دیر بعد۔۔۔۔؟ میں غصے سے چیخ ہی تو اُٹھی۔
’وہ دراصل میرا گھرجس گلی میں ہے، وہ بہت تنگ ہے تو اُس بےچارے کی گاڑی وہاں تک نہیں آتی۔۔۔۔ اتنی لمبی تو گاڑی ہے اُسکی کہ گھر تک آتے آتے جھنجلا جاتے ہیں وہ سب۔۔۔۔کہ اماں آپکا گھر کتنی تنگ جگہ پر ہے، سچ ہی تو کہتے ہیں بےچارے‘۔ وہ مجھ سے نظریں چراتے ہوئے بولیںگویا کے چھوٹے سے گھر میں رہنا بھی اُنکا ہی جرم ٹھہرا۔ میرا دل چاہا کہ اِس ماں کی عظمت کو سلام کروں جس نے اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ایک اعلی مقام تک پہنچایا اور جب وہ کسی قابل ہو گئے تو اپنی ماں کی محنت اور قربانیوں تک کو بھول گئے۔ پھر بھی اُنکی ماں اُنکی غفلت اور لاپرواہی کا کوئی شکوہ نہیں کر رہی تھی۔ خدارا اب مزید کوئی سوال نہیں۔۔۔۔ دو بوڑھی آنکھوں نے اپنا بھرم رکھنے کیلئے خاموش التجا کی تو میں نوکِ زباں پر مچلتے بے شمار سوالات کو دل میں دبا گئی، کہ وہ خودار عورت اگر اپنی مجبوریوں کا بھرم رکھنا چاہتی ہے تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں اُنکی اولاد کی کوتاہیاں اُنکے سامنے لا کر اُنھیں اور اُنکی پرورش کو شرمسار کروں، سو میں نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی، وہ ملول چہرے کے ساتھ خاموشی سے اُٹھ کر چلی گئیں، میں بھی دل پرڈھیروں بوجھ لئے گھر آ گئی۔
والدین ہمیں اُنگلی پکڑ کر قدم قدم چلنا سکھاتے ہیں اور جب ہم کسی قابل ہو جاتے ہیںتو اُنہیں ہی بھول جاتے ہیں، اپنے آشیانے کو بھول کر کُھلے آسمان کی رفعتوں میں کھو جاتے ہیں۔ کیا بوڑھے ماں باپ بوجھ ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس معاشرے کو ، اسکی روحانی و اخلاقی اقدار کو، فیملی سسٹم کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اے اہلِ فِکر، غور کیجئے کہ اگر آج ہم نے اپنے رشتوں کو عزت دینا نا سیکھی، بزرگوں کو مان احترام نہیں دیاتو بہت جلد ہم اپنی پہچان اور اپنا اصل کھو بیٹھیں گے۔ میرے اپنے قارئین، اگر فردِ واحد بھی یہ اندازِ فکر اپنا لے کہ ہمیں اپنی معاشرتی و اخلاقی و مذہبی اقدار کی پاسداری کرنی ہے تو اِس خاموش تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔ ذات سے ہستی تک کا سفر خود کی پہچان دیتا ہے، شہرِ ذات میں انقلاب لے آتا ہے۔ لہذہ شخصی انقلاب سے معاشرتی انقلاب تک کا وقت دور نہیں ہو گا۔۔بشکریہ: روشانے سبعین۔ فیصل آباد
مطبوعہ روزنامہ دن
No comments:
Post a Comment
بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔